اب وہ مہکی ہوئی سی رات نہیں
بات کیا ہے کہ اب وہ بات نہیں
پھر وہی جاگنا ہے دن کی طرح
رات ہے اور جیسے رات نہیں
بات اپنی تمہیں نہ یاد رہی
خیر جانے دو کوئی بات نہیں
پھر بھی دل کو بڑی امیدیں ہیں
گو بظاہر تواقعات نہیں
عشق ہوتا ہے خودبخود پیدا
عشق کے کچھ لوازمات نہیں
ایسے فضلی کے شعر کم ہوں گے
جن میں کچھ دل کی واردات نہیں