احباب کے خلوص کا لشکر سمیٹ لوں
دل میں محبتوں کا سمندر سمیٹ لوں
آنے لگا ہے وقت جدائی کا سامنے
اے شام وصل آ ترا پیکر سمیٹ لوں
بکھری ہوئی ہیں یہ جو زمانے میں چاہتیں
میں کیوں نہ اپنی ، ذات کے اندر سمیٹ لوں
کیا جانے تجھ سے پھر یہ ملاقات ہو نہ ہو
آنکھوں میں تیرے قرب کا منظر سمیٹ لوں
تو چاند ہے سو میری پہنچ سے ہے دور تر
پھر کیوں نہ میں فلک کے یہ اختر سمیٹ لوں