اب تو خود کے دل پر بھی اعتبار نہیں ہوتا
یہ سب جھوٹے ناطے ہیں اس جہاں میں پیار نہیں ہوتا
کتنا بھی سمجھا لیں، خود کو اور اپنے دل کو
ساگر کا اک قطرہ کبھی ساگر نہیں ہوتا
عمر گذر رہی ہے، تیری چاہت کی حسرت لیے
تقدیر کے فیصلے پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا
بہہ جاتے ہیں اشک موتی اک اور غم کی راہ لیے
اداس آنکھوں کو اب تیرے ساتھ کا انتظار نہیں ہوتا