اندھیری رات تھی آ نکھیں اداس تھیں
مسافر جاگ چکا تھا پر راہیں اداس تھیں
وہ بھنور ایک دن ہماری تقدیر میں بھی اتر آ یا
اس کی تباہکاریوں کی وہ یادیں اداس تھیں
موسم بہار میں جب بلبل مطلوب نہ ہو سکی
گلاب کو لگتیں تمام شاخیں اداس تھیں
درد اپنے آ خری مراحل طے کر نے لگا جب
الوداع کہتے ہوئے اسے وہاں کی فضائیں اداس تھیں
نہ کوئی خواب تھا یہ نہ حقیقت تصور میں تھی
ورق میں لکھیں تمام باتیں اداس تھیں