اب شوقِ ملاقات ادھر بھی ہے اُدھر بھی
اشکوں کی یہ برسات ادھر بھی ہے اُدھر بھی
اب روز ملاقات کی خواہش ہوئی پیدا
سینے میں لگی آگ ادھر بھی ہے اُدھر بھی
مٹی کے بنے لوگ ہیں ہم ٹوٹ نہ جائیں
ہاں تیز یہ برسات ادھر بھی ہے اُدھر بھی
قسمت میں لکھا ہوگا تو مل جائیں گے اک دن
امیدِ ملاقات ادھر بھی ہے اُدھر بھی
انجان ہوئے ہم سے کیوں اتنا بھی نہ سوچا
یادوں کی حسیں رات ادھر بھی ہے اُدھر بھی
ایسے مرے جذبات سے کھیلا ہے انھوں نے
بدنام مری ذات ادھر بھی ہے اُدھر بھی
ہوتی ہے زمیں تنگ یہاں چل اور کہیں ارشیؔ
اللہ کی یہی ذات ادھر بھی ہے اُدھر بھی