تجھے کیسے سکھاؤں سلیقہ حجاب کا
تیری نظر میں اور ہے مقصد شباب کا
پھرتا ہوں در بدر جنوں کی تلاش میں
ہر باب پڑھ چکا ہوں خرد کی کتاب کا
ہرگز گلہ نہیں تیرے انکار سے مجھے
سارا فتور ہے یہ فرنگی نصاب کا
کیسے کرے تمیز حرام و حلال کی
قائل نہیں رہا جو گناہ و ثواب کا
جا کر چمن میں سیکھیے اسلوب زندگی
کانٹے بھی ساتھ رکھتا ہے بوٹا گلاب کا
عریاں بدن تیری عظمت پہ داغ ہے
تو دہر میں امین تھا حیا کے نصاب کا
کر غور کس طرح تجھے رسوائیاں ملیں
کیونکر ہدف بنا تو جہاں خراب کا
آنکھوں کے سامنے ہیں بھیانک حقیقتیں
دیکھتا ہوں کاش یہ منظر ہے خواب کا
دشمن کی بے کسی بھی نہ دیکھی گئی قدیر
دل میں خیال آ گیا روز حساب کا