خزاں کی بستیوں میں ھم نے اپنا گھر لیا ھے
یوں جلتی راھوں سے پھر اک نیا سفر لیا ھے
اندھیرے جاگتے ہیں یوں میری بیدرد راتوں میں
سناٹوں کو میں نے اپنے دامن میں بھر لیا ھے
جاگتی آنکھوں نے جگراتوں کے کئی روپ دکھلائے
مجھے سونے دو میں نے رات سے اک پہر لیا ھے
انجانے راستوں میں اور بہت سے امتحان آئیں گے
میں نے جگنوؤں کو اپنی مٹھی میں بھر لیا ھے
دروازہ بند کر کے اس کو کیوں محبوس رکھا ھے
اسے جانے دو میں نے وہ الزام اپنے سر لیا ھے