اس تماشے کا سبب ورنہ کہاں باقی ہے
Poet: فریاد آزر By: Adnan, karachiاس تماشے کا سبب ورنہ کہاں باقی ہے
اب بھی کچھ لوگ ہیں زندہ کہ جہاں باقی ہے
اہل صحرا بھی بڑھے آتے ہیں شہروں کی طرف
سانس لینے کو جہاں صرف دھواں باقی ہے
زندگی عمر کے اس موڑ پہ پہنچی ہے جہاں
سود ناپید ہے احساس زیاں باقی ہے
ڈھونڈھتی رہتی ہے ہر لمحہ نگاہ دہشت
اور کس شہر محبت میں اماں باقی ہے
میں کبھی سود کا قائل بھی نہیں تھا لیکن
زندگی اور بتا کتنا زیاں باقی ہے
مار کر بھی مرے قاتل کو تسلی نہ ہوئی
میں ہوا ختم تو کیوں نام و نشاں باقی ہے
ایسی خوشیاں تو کتابوں میں ملیں گی شاید
ختم اب گھر کا تصور ہے مکاں باقی ہے
لاکھ آذرؔ رہیں تجدید غزل سے لپٹے
آج بھی میرؔ کا انداز بیاں باقی ہے
More Sad Poetry






