اس سے ملنے کا کوئی بہانہ نہیں رہا اب
ہمارا کسی سے دوستانہ نہیں رہا اب
چھوڑ گیا ہے دو گام چل کر ہمیں وہ
اس کا ہمارے ہاں آنا جانا نہیں رہا اب
الزام کس پر لگاہیں بے وفائی کا
وفا کا یہاں کوئی زمانہ نہیں رہا اب
ترک تعلق کر لیا ہے اب اس نے
ہمارا کوئی افسانہ نہیں رہا اب
تھم گیا ہے جب سے سلسلہ الفت کا
شہر میں اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا اب