اس محبت میں کیا سے کیا نہ ہوئے
ہم مگر پھر بھی با وفا نہ ہوئے
چھوڑئیے ان کا واقعہ صاحب
درد تو بن گئے دوا نہ ہوئے
وہ مرے چارہ گر رہے برسوں
میری خاطر کبھی گھٹا نہ ہوئے
گرچہ منزل سبھی کی ایک ہی تھی
بے وفا لوگ با وفا نہ ہوئے
انھوں نے جب عطا کیے تو یہاں
درد حد سے کبھی سوانہ ہوئے
ساتھ چل کر بھی فاصلے ہی رہے
ہم سفر پھر بھی ہم نوا نہ ہوئے
آپ سے دور کیا ہوئے سلمیٰ
پھر کسی کے بھی دل ربا نہ ہوئے