سوچیں تو کیا سوچیں
اس مہنگائی کے دور میں
آنسو تو کب کے ختم ہو چکے
خواہشوں کا کب کا گلا گھونٹ چکے
اس مہنگائی کے دور میں
اب تو کوئی لفٹ بھی نہیں کراتا
تیل تو کب کا ختم ہو چکا
اس مہنگائی کے دور میں
عشق٬ محبت کے سوا اب کیا کریں کوئی
حال دل لکھے تو کیسے لکھے
کاغذ بھی مہنگا ہو چکا اب
کریں تو کیا کریں
اس مہنگائی کے دور میں
خون نچوڑ لیا ہے جسموں سے ہمارے
حملہ کیا اتنا زبردست مہنگائی نے
اب کریں تو کیا کریں اور
سوچیں بھی کیا سوچیں
اس مہنگائی کے دور میں
اس افراتفری کے دور میں