اس چشم نور کی نگاہ اک دھار سی لگتی ہے
دل تصفیہ نہیں مفصل انکار سی لگتی ہے
یہ بھی اپنے مزاج سے عالی مرتبہ لوگ بن گئے
ابکہ یہ دنیا تھوڑی بہت اہنکار سی لگتی ہے
حالات کی ہچکولی جنبش تو دیتی ہے مگر
اپنی قسمت بھی مصنف واقفکار سی لگتی ہے
وہ کہتا ہے گرد کی آنکھیں پاک نہیں رہی
ارے تیری ادا بھی تو شکار سی لگتی ہے
دنیا باہر کی اوڑھنی اندر نظارہ کچھ اور
غربت بھی ٹوٹے ستاروں کی چادر سی لگتی ہے
میں واعظ تو نہیں کہ تلقین کرلیتا لیکن
کبھی اپنی زندگی بھی ایک ذکر سی لگتی ہے