اس کا وعدہ تا قیامت کم سے کم

Poet: صبا اکبرآبادی By: نجیب, Rawalpindi

اس کا وعدہ تا قیامت کم سے کم
اور یہاں مرنے کی فرصت کم سے کم

سہ سکے درد محبت کم سے کم
دل میں اتنی تو ہو طاقت کم سے کم

اس کی یادوں سے کہاں ہے دشمنی
شمع جلتی شام فرقت کم سے کم

اس کے ملنے سے نہ ہوتی روشنی
گھٹ تو جاتی غم کی ظلمت کم سے کم

دیکھنے سے ان کے یہ حاصل ہوا
ہو گئی اپنی زیارت کم سے کم

اس کے خط میں اور سب کچھ تھا مگر
صرف مطلب کی عبارت کم سے کم

درد دینے کے وہاں ساماں بہت
اور تڑپنے کی اجازت کم سے کم

کیوں غم دوراں زیادہ مل گیا
تھی ہمیں جس کی ضرورت کم سے کم

خیر تم سے دوستی مشکل سہی
رہنے دو صاحب سلامت کم سے کم

دیکھ کر ان کو یہ اندازہ ہوا
ہوگی ایسی ہی قیامت کم سے کم

دولت غم کی فراوانی سہی
دامن دل میں ہے وسعت کم سے کم

غم نہیں جو چند یادیں ساتھ تھیں
کر تو لی دل کی حفاظت کم سے کم

سینہ چاکی عمر بھر کی ہے صباؔ
زخم سلنے کی تھی مدت کم سے کم

Rate it:
Views: 738
15 Feb, 2022
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL