اس کا وعدہ تا قیامت کم سے کم
Poet: صبا اکبرآبادی By: نجیب, Rawalpindiاس کا وعدہ تا قیامت کم سے کم
اور یہاں مرنے کی فرصت کم سے کم
سہ سکے درد محبت کم سے کم
دل میں اتنی تو ہو طاقت کم سے کم
اس کی یادوں سے کہاں ہے دشمنی
شمع جلتی شام فرقت کم سے کم
اس کے ملنے سے نہ ہوتی روشنی
گھٹ تو جاتی غم کی ظلمت کم سے کم
دیکھنے سے ان کے یہ حاصل ہوا
ہو گئی اپنی زیارت کم سے کم
اس کے خط میں اور سب کچھ تھا مگر
صرف مطلب کی عبارت کم سے کم
درد دینے کے وہاں ساماں بہت
اور تڑپنے کی اجازت کم سے کم
کیوں غم دوراں زیادہ مل گیا
تھی ہمیں جس کی ضرورت کم سے کم
خیر تم سے دوستی مشکل سہی
رہنے دو صاحب سلامت کم سے کم
دیکھ کر ان کو یہ اندازہ ہوا
ہوگی ایسی ہی قیامت کم سے کم
دولت غم کی فراوانی سہی
دامن دل میں ہے وسعت کم سے کم
غم نہیں جو چند یادیں ساتھ تھیں
کر تو لی دل کی حفاظت کم سے کم
سینہ چاکی عمر بھر کی ہے صباؔ
زخم سلنے کی تھی مدت کم سے کم






