رکھ کہ کاندھے پہ تن اپنا چلا آیا ہوں
جان و دل اس کی گلی میں ہی جلا آیا ہوں
اس کے آنے کا یہ موسم تو نہیں ہے لیکن
آتے آتے گھر چھوڑ کر کھلا آیا ہوں
جاگ جائیں گے ذرا سی آہٹ سے مگر
جانتا ہوں وہ غم جو بھلا آیا ہوں
میری آنکھوں میں نظر آتے ہیں دھند کے بادل
ابھی ابھی تاج محل مٹی میں ملا آیا ہوں
کاش کیا جانیے آشنا کوئی ہے کہ نہیں
کس سہارے میں بستی میں چلا آیا ہوں