اشک بن کے لہو آنکھوں میں نہ تر آئے کہیں
شدتِ غم سے تیری آنکھ نہ بھر آئے کہیں
تجھے کیسے سنا دیں ہم فسانہء غمِ دل
حسن تیرا میرے غم سے نہ بکھر جائے کہیں
میرے ویران دل کی وحشتوں سے دور رہو
یہ سناٹا تیرے دل میں نہ اتر آئے کہیں
سوچتا ہوں تیری نظروں سے بہت دور رہوں
میں تو کیا سایہ بھی میرا نہ نظر آئے کہیں
تیری دنیا سے بہت دور، بہت دور کہیں
جہاں تجھے میری کوئی نہ خبر آئے کہیں
دل ویران کو ایسی جگہ بسا آئیں
راستے میں در و دیوار نہ گھر آئے کہیں
دلِ بنجر تیری زمیں سیراب کرنے کو
چھوڑ دے جستجو کہ اب نہ ابر آئے کہیں
بہت سنا ہے تیرا تذکرہ مے خانوں میں
تیری نظر کا ہو جس پہ نہ اثر جائے کہیں
وہ کہاں لے چلے عظمٰی تمام حسرتوں کو
قرار نہ ملے جس کو نہ صبر آئے کہیں