اب تو جینا یہاں اضافی ہے
سب یہ آہ و فغاں اضافی ہے
اب تو حاکم کا حکم آیا ہے
ڈھادو اب جو یہاں اضافی ہے
کیوں کوئی دکان باقی ہے
کس کا اب آشیاں اضافی ہے
اب گرادو دکان اس کی بھی
جس کا بھی سائباں اضافی ہے
باندھ کر پیش اب کیا جائے
منہ میں جس کے زباں اضافی ہے
سر اٹھا کر اگر چلا کوئی
ایسا ہر شخص یاں اضافی ہے
جو بھی کھولے زباں یہاں اب تو
ہر وہ نام و نشاں اضافی ہے
اب چمن میں خزاں اضافی ہے
نیلگوں سا دھواں اضافی ہے
میں تو عادی ہوا ہوں جلنے کا
اب ترا سائباں اضافی ہے
اس کے تیور بتارہے ہیں مجھے
میرا ہونا یہاں اضافی ہے
تم تو یوں ہار کے بھی جیتو گے
پھر تو یہ امتحان اضافی ہے
ایک پتھر مزید آیا ہے
شاید اک مہرباں اضافی ہے
میری تحریر وہ سمجھتے ہیں
میری اب یہ زباں اضافی ہے
کون دیکھے گا تجھ کو اب ارشیؔ
تیرا ہونا یہاں اضافی ہے