اظہار سوال پے بھی جواب نہ ملنا
یہ تو اظہاریں سوال کی توہین تھی
خاموشی کو لب پے سجا کر مسکرا دیے
یہ تو اقرایں وفا کی توہین تھی
شوقیں دید کے لیے کوئی آیا تھا ، اور تم نے نقاب ُاوڑھ لیا
یہ تو شوقیں دید کے کٹھن راستوں کی توہین تھی
کشمش میں جاگ رہی ہوں کب سے ، تم آئے اور سو بھی دیے
یہ تو میرے مدتوں کے خواب چھوڑنے کی توہین تھی
جوابیں خط میں جدائی تھی ، پھر کیوں اشک ُابھر پڑے آنکھوں میں
شاید ! یہ میرے دل کے لکھے ارمانوں کی توہین تھی
گلاب دیا تھا ہاتھ میں ، مگر ٹکڑے ملے بازار میں
یہ تو ُاس بے گناہ ُسرخ گلاب کی توہین تھی