آنکھوں کو نہ اپنی یوں تو اشکبار کر
باتوں پہ میرے یار ذرا اعتبار کر
رہتا نہیں کبھی بھی یہاں وقت ایک سا
آئیں گے اچھے دن بھی ذرا انتظار کر
وہ کتنی نعمتوں سے تجھے ہے نوازتا
اس بات پر خدا کا شکر بار بار کر
ہر بات کا گلہ نہ تو قسمت پہ ڈال دے
اپنے وجود میں بھی تو پیدا نکھار کر
مالک عطا ہو مجھ کو بھی دیدارِ مصطفیٰﷺ
سجدوں میں جا کے یہ دعا تو بے شمار کر
اٹھتے نہیں ہیں بوجھ گناہوں کے اب خدا
کشتی پھنسی بنھور میں اب تو ہی پار کر
آئیں گے اچھے دن بھی ذرا انتظار کر
میری وفا پہ بھی ذرا تو اعتبار کر
پہلے ہی خوب تو نے تماشے کیے یہاں
پھر سے تماشا کوئی نہ اب سرِ بازا کر
سن تو رہا ہے کب سے تو لوگوں کی بات کو
اپنی بھی بات اب تو کوئی میرے یار کر
وہ اور تھے جو وقت کے سانچے میں ڈھل گئے
یوں مجھ کو نہ تو کبھی ان میں شمار کر
اس کی طرح تو بھی اسے دل سے نکال دے
اس کے لیے تو دل کو نہ یوں بے قرار کر
وہ جھوٹا اک پیار تھا سو ختم ہو گیا
اس بات کو نہ اب یوں تو سر پر سوار کر
اب لوٹ کر کبھی میں یاں ہر گز نہ آؤں گا
جتنی بھی اب تو چاہے یہ آہ و پکار کر