افق کا چاند، ستاروں کو ہم نواں کرکے
سحر میں چھوڑ گیا شب کو بے ردا کر کے
ہمارے شہر میں ہوتا ہے خونِ عدل بہت
نکالے جاتے ہیں غنڈے یاں پارسہ کر کے
سنا ہے زخم ملیں تو زمانہ پوچھتا ہے
ذرا دیکھیں مگر ہم پا میں آبلہ کر کے
راہِ وصال کا ساتھی ہی مجھ کو چھوڑ گیا
ہجر کی بھول بھولیوں میں لاپتا کر کے
قبا پہ داغِ محبت، گریباں چاک میرا
مجھے ملا ہے یہی عشقِ با وفا کر کے
اگر ہو شوقِ سفر تو نہ دیکھنا منزل
ملے گا تم کو سفر اس کو نارسا کر کے
یزیدِ وقت کی ظلمت بڑھے ہی جاتی ہے
کوئی حسین اب آئے خدا خدا کر کے
تجھے ہیں کام بہت چھوڑ شاعری احسن
نہ جی حیات تو اپنی یوں بے مزا کر کے
(مہربانی فرماکر گزشتہ غزل کو اس غزل سے تبدیل کردیجئے یا اضافہ اور غلطیاں درست فرمادیں)