التجا
Poet: M Usman Jamaie By: M Usman Jamaie, karachiدن کی بھٹی میں تپتے رہے جسم و جاں
روح جلتی رہی
زندگی کے سلگتے سوالات میں
جون کی دھوپ جیسے خیالات میں
ننگے پیروں تلے
پھیلی جلتی جھلستی زمینوں سے حالات میں
دست و پا جیسے جلتی ہوئی لکڑیاں
شعلے لفظوں کے دل پر برستے رہے
پیار کی
چین کی راحت آرام کی
اک جھڑی کے لیے
جو برس جائے بس دو گھڑی، کے لیے
بس ترستے رہے
آسمان اور چہروں کو تکتے رہے
لاوے کی لہر رگ رگ میں بھرتی رہی
اور گردش بدن بھر میں کرتی رہی
جلتا سورج سوا نیزے پر آگیا
دل میں برسوں کے آتش فشاں جاگ اٹھے
جان سہتی رہی
اور گھل کر مساموں سے بہتی رہی
رات پھیلی
تو یہ پھیلتی آگ یک دم سمٹنے لگی
کھنچ کے سارے بدن، روح سے، جان سے
خالی آنکھوں کے حلقوں میں بھرنے لگی
آنکھیں
انگارے جیسے دہکتے ہوئے
دو جہنم ہوں جیسے بھڑکتے ہوئے
ہے تپش وہ قیامت کی جل جائیں گی
جلتے سپنے الاؤ بنے ہیں یہاں
نہ بجھے تو یہ آنکھیں پگھل جائیں گی
یہ دو انگارے آکر بجھادے کوئی
پیار کی بارشیں نہ سکوں کی لہر
ان کو دو بوند ہی نیند لادے کوئی
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






