الجھن سی ہونے لگی ہے مجھے اپنی ذات سے
ہر اک کردار سے ہر اک بات سے
چہرے ہیں معصوم فرشتہ دل ہیں پتھروں جیسے
اٹھ رہا ہے جی اب تو کائنات سے
وعدہ کر کے ایفا کرنا نہیں آتا
مکر جاتے ہیں لوگ اپنی ہر بات سے
یادوں کی باز گشت اب تک سنائی دیتی ہے
پیچھا چھڑاؤں کیسے ان توہمات سے