امید ہی پہ قائم رہنا ہے آدمی کا
مایوس ہو کے جینا شیوہ نہیں جری کا
دیکھو جہاں میں ہرسو دستور ہے یہ جاری
ہر ظلمتوں کے پیچھے آنا ہے روشنی کا
ہوگی ہی آزمائش ہر ایک کی جہاں میں
نہ ہو سکے گا یاروں اس سے مفر کسی کا
کرتوت پہ نظر ہو شکوہ عبث ہے کرنا
دکھڑا ہی کیوں سنائیں اپنی ہی بے بسی کا
اعمال ہوں گے جیسے تب فیصلے بھی ویسے
احساس ہو ہی جائے اپنی ہی بے حسی کا
ہر حال میں نظر ہو اس کی ہی مصلحت پر
جو ہو گا وہ ہی بہتر شکوہ نہ ہو قوی کا
قربان کیوں نہ ہوئیں اپنے کریم رب پر
جس کے ہی دم سے جاری ہر کام زندکی کا
تخلیق کا تھا مقصد ہو بندگی اسی کی
اس کو نہ بھول جائیں فرمان ہے اسی کا
چلتے رہیں گے تب تو پا جائیں گے ہی منزل
ہمت سے کام لیناہو طرز ہم سبھی کا
گھیریں کبھی حوادث دشمن بھی ہو زمانہ
ہو چشم یار جس پر کیوں ڈر ہو نردئی کا
جو اثر کی ہی مانو ہوجاؤ تم اسی کے
تم کو بنا دے وہ ہی سردار اس دھرتی کا