امیر شھر کو اپنے محکوموں سے کیوں خوف آتا ھے
جاگیرداروں کو اپنے ھاریوں سے کیوں خوف آتا ھے
اس خاک مشت سے بنے انساں کی عظمت تسلیم
مگر ریاست کو دھشت گردوں سےکیوں خوف آتا ھے
پروانے کو شمع پر اپنی جان وارنے کا عزم تو ھے لیکن
شمع کو بجھنےکے اندیشوں سے کیوں خوف آتا ھے
حالات اس ڈگر پر چلے کہ چند انسان بھیڑیے بن گئے
قوم کی بیٹیوں کو اپنے محافظوں سے کیوں خوف آتا ھے
کہا جاتا ھے کہ محنت میں عظمت ھےاسےجاری رکھو
پھر اجڑےلوگوں کو بھوک افلاس سے کیوں خوف آتا ھے
غم روزگار سے لٹے پٹےانسانوں کا احتجاج بجا لیکن
حاکموں کو اپنے شہریوں سے کیوں خوف آتا ھے
حسن جزبہءشوق سے بھرپور طالبعلم پرامید
مگر انکو اقرباپرور سفارشیوں سےکیوں خوف آتا ھے