انتہا
Poet: muhammad faizan munghiz By: muhammad faizan munghiz, jhelumمردود ٹھہرائے جاتے ہیں
گلیوں سے بھگائے جاتے ہیں
جب عشق انہیں تڑپاتا ہے
تب فتوے لگائے جاتے ہیں
محفل میں گھنٹوں پھر پھر کے
جب پردے اٹھائے جاتے ہیں۔
اپنی ہی خبر نہ ہوتی ہے
وہ ہوش اڑائے جاتے ہیں۔
جو داغ ختم ہوں مشکل سے
وہ داغ لگائے جاتے ہیں
کبھی پہروں رلایا اور کبھی
سارے جگ میں ہنسائے جاتے ہیں۔
وہ وار کریں ان تیروں سے
جو ہم پہنچائے جاتے ہیں
ابھی ایک گرا اور دوسرا بھی
ہم سب ہی اٹھائے جاتے ہیں
اک عشق ہوا وہ جرم رہا
نظروں سے گرائے جاتے ہیں
رونق بھی برابر بڑھتی رہی
مہمان جو آئے جاتے ہیں۔
اس دنیا کے دھوکے میں صرف
حیلے ہی بنائے جاتے ہیں
جو شوق سے گلی میں آتے ہیں
اب خوں میں نہائے جاتے ہیں
سب خواب ہی جھوٹے ہوتے ہیں
کیا خواب دکھائے جاتے ہیں
وہ لوگ اترتے ہیں جی سے
جو دل میں بسائے جاتے ہیں
جب خوشی نہیں ان آنکھوں میں
کیوں رستے سجائے جاتے ہیں
بس فرق کہ وہ تو جھوٹے پر
ہم وعدے نبھائے جاتے ہیں
جن رستوں سے اترے گا دل میں
وہ رستے بنائے جاتے ہیں
وہ پھر سے جیتے ہیں کیونکر
ہم پھر سے ہرائے جاتے ہیں
اب ختم ہوا ہے افسانہ
اور ہم بھی جائے جاتے ہیں
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






