انجانے خوف میں کچھ لوگ ڈرائے بیٹھے ہیں
تاریکی کی گہری دھند سے لپٹائے بیٹھے ہیں
ذرا ذرا سی آہٹ پر چیخیں نکل جاتی ہیں
وہ اپنی منزل کے نشاں مٹائے بیٹھے ہیں
سلسلہ چل رہا ہے درد بھری سسکیوں کا
تاریکیوں کے شہر میں لاو جلائے بیٹھے ہیں
اتنا الجھ گے ہیں رشتوں کی بُھلبھلیوں میں
قریب ہوتے ہوئے بھی راستہ بُھلاے بیٹھے ہیں
نہیں کر سکتے اظہار اپنے جنون کا ہم
نفرت کے سائے میں محبت چھپائے بیٹھے ہیں