مری قسمت کے تارے
کچھ عجب ہی چال چلتے ہیں
لکیریں ہاتھ کی اپنے الگ انداز رکھتی ہیں
نہیں مجھ کو میسر خوش نصیبی ”عام“ ہونے کی
سو اپنے منفرد ہونے کی قیمت میں چکاتا ہوں
وہ روزوشب جو بِن مانگے ہی مل جاتے ہیں اوروں کو
مرے جیون میں وہ اک پَل کی صورت بھی نہیں آئے
دعا مانگو نہ مانگو، سب پہ جو بادل برستے ہیں
نظر اُٹّھی رہی پر مجھ پہ وہ بادل نہیں چھائے
محبت بھی یہی کچھ ہے
طلب اور آرزو کے سامنے اندھے اندھیرے ہیں
ہے پیاسی خواہشوں کے روبہ رو پھیلا ہوا صحرا
انھیں اک روز بہنا ہے یا سوزش بن کے رہنا ہے
حسیں وہ خواب، میری آنکھ میں جن کے بسیرے ہیں
تمنا، خواب، خواہش، آرزو کو زہر ہونا ہے
مجھے یہ زہر پینے دو
مری اک بات بس مانو
مجھے جذبوں میں احساسات ہی میں زندہ رہنے دو