کوئی بھی یہاں صاحبِ کردار نہیں ہے
اک دوسرے کا کوئی بھی یاں یار نہیں ہے
اب تجھ کو کوئی راز بتایا نہیں جاتا
لیکن یہ مرا عجز ہے انکار نہیں ہے
اک بار بھی ملنے نہ کبھی اس نے بلایا
کہتے تھے کہ ملنا کوئی دشوار نہیں ہے
کیوں لوگ دیے جاتے ہیں دھوکے یہاں سب کو
اس شہر میں کوئی بھی وفا دار نہیں ہے
اطوار کی پستی میں ہی جو ڈوبا ہوا ہے
کہتے ہیں اسے لوگ وہ عیار نہیں ہے
اطوار پتا دیتے ہیں رہبر کے یہاں پر
اس قوم کا اچھا کوئی سردار نہیں ہے
تحریر سے تیری یہاں کچھ بھی نہیں بدلا
ارشیؔ کوئی اچھا تو قلم کار نہیں ہے