اور کتنا درد سہنا ہے مجھے
زندگی! اب تو سمجھنا ہے مجھے
محفلیں اب بوجھ لگنے لگ گئیں
خامشی میں خود کو سننا ہے مجھے
خواب آنکھوں میں تھے، ٹوٹے اس طرح
اب تو نیندوں سے بھی ڈرنا ہے مجھے
دل کی دیواروں پہ چپ چھا گئی
اب کوئی آواز بھرنا ہے مجھے
لفظ دل کے زخم بھر سکتے نہیں
اپنا غم اور بڑھانا ہے مجھے
ہر سہارا ایک دھوکا بن گیا
اب تو خود ہی تنہا چلنا ہے مجھے
چپ کی چیخیں گونجتی ہیں رات بھر
کیا یہی سب کچھ سہنا ہے مجھے
دل نے سیکھا ہے ہنر خاموشی کا
اب تو اشکوں میں بھی بہنا ہے مجھے
لفظ جب زخموں پہ لکھنے ہیں عدیل
درد کو خود ہی سہنا ہے مجھے