اَلَم کی عَزا ہے، عجب سی سزا ہے
نہ سینے پہ سر ہے نہ سر پر رِدا ہے
بہاریں سبھی اب نئی سی لگیں گی
جہاں میں چلی جو نئی سی ہَوا ہے
بھلے کوئی چاہے کنویں میں گرا دے
امیدوں سے انکی تحیّر وفا ہے
صدائیں ہیں آتی عطش کی بلا سے
مگر پھر بھی اظلم، عدو کی جفا ہے
محبت کے بارے بتاؤ سبھی کو
محبت کے لائق وہ ذاتِ خدا ہے
جفاکش ہوں میں پر بھلانے میں اسکو
زمانے لگیں ہیں وہ کیسی بلا ہے
تبسم لبوں پر سجائے ہوئے ہیں
غموں میں دکھوں میں یہ کیسی ادا ہے
اسے کچھ پتا ہے مرا حال کیا ہے؟
اسے تم بتاؤ کہ دل جل رہا ہے
یہ قسمت مجھے کھینچ لائی وہیں پھر
اسی در پہ جس کی سزا میں مزا ہے
وہ لہجہ خدا کی قسم جان لیوا
تکلم تو قاتل، وہ خود بے وفا ہے
یہ دلچسپ ہے اے ولؔی اک سمے میں
میں تجھ پر مرا ہوں تو اس پر مرا ہے