اپنوں نے جس کو ہر پل ستایا ہو
اُس کو غیروں پہ کیسے بھروسہ رہے
اپنوں نے جس کے گھر کو جلایا ہو
اُس کو غیروں پہ کیسے بھروسہ رہے
اپنوں نے جس کو بے در کرایا ہو
اُس کو غیروں پہ کیسے بھروسہ رہے
اپنوں نے ہی دل جس کا دُکھایا ہو
اُس کو غیروں پہ کیسے بھروسہ رہے
اپنوں نے جس کو ہر پل ستایا ہو
اُس کو غیروں پہ کیسے بھروسہ رہے
اپنوں نے جس کا سٹیٹس گھٹایا ہو
اُس کو غیروں پہ کیسے بھروسہ رہے
اپنوں نے زہر جس کو پلایا ہو
اُس کو غیروں پہ کیسے بھروسہ رہے