اِتفاقاً کل میری اس سے ملاقات ہوئی
ہچکِچاتے ہوئے لہجے میں چند بات ہوئی
وہی صندل سہ چہرہ، ادائیں بے نیازی سی
سنہری آنکھوں میں کاجل اور اک مُسکان دھیمی سی
ہواؤں کے اشاروں پر بکھرتی ہوئ زُلفیں
انھیں موقع جو مل جائے تو اسکے لب کو چُومیں
گھڑی پہنی ہوئ اِک ہاتھ میں، اِک ہاتھ میں کنگن
اور اسکے قدموں کی آہٹ پر وہی پائل کی چَھن چَھن
بہت معصوم سہ لہجہ جو رَس گھول دے لفظوں میں
ہزاروں خواہشیں پیدا جو کردے دل کے ہلکوں میں
وہی بے باک پَن باتوں میں اور لُطف سے بھرپور
ہو اسکا انگ انگ جیسے کسی مستی میں چُور چُور
اپنے بالوں کو لَٹ دے کر وہی نزاکت سے شرمانا
بے حد سادہ طبیعت میں اپنی ہر بات منوانا
تو پھر میں سوچتا رہتا
کچھ بھی تبدیل نہیں اس میں
یہ تو بلکل ویسی ہے
جیسے گزرے دنوں میں تھی
تو پھر میں غور کرتا خود پر
اور بے سبب ہنستا
کہ اِک اُجڑا ہوا دل ہے جسے سب سے قدورت ہے
نہ کسی کی چاہ باقی ہے نہ اب خود سے محبت ہے
نا ایسا روگ ہے کوئی جو مجھے جی بھر کے رُلا دے
نا کوئ اسباب خوشی کا جو مجھے کھُل کر ہنسا دے
اپنے لہجے کی کڑواہٹ سے میں اب خود بھی ڈرتا ہوں
میں اگر سَج سنور بھی لوں تو اکثر خود پر ہنستا ہوں
نا کوئ معمول ہے اپنا ، نہ کسی سے مجھکو ملنا ہے
اپنے گھر کی دیواروں میں ہی خود کو قید رکھنا ہے
طلوعِ سورج کو دیکھے ہوئے ہفتوں گزر جائیں
آندھیرا جیسے ہی چھائے تو ہم گھر سے نکل آئیں
بھلا یہ زندگی ٹہری کے جس زندگانی کو
قضا کے وقت سے پہلے ہی اِک موت آجائے
تو پھر وہ ٹوکتی مجھکو، کہاں کھوئے ہوئے ہو تم؟
وقت آگے نکل آیا اور پیچھے رہ گئے ہو تم
کسی کے منتظر رہنے سے حاصل کچھ نہیں ہوگا
اِک ایسا ہمسفر ڈھونڈو
جو گزرے وقت کی رفتار سے تمکو کھینچ کر لائے
تمھارا ہاتھ تھامے اور
تمھاری منزل کی جانب تمھارے سَنگ سَنگ جائے
اور اس بے رنگ زندگانی کو
اپنے رنگ میں رنگ جائے