اِنسانیت کا دَرَس جو دیتے ہیں فَخَر سے

Poet: مظہرؔ اِقبال گوندَل By: MAZHAR IQBAL GONDAL, Karachi

اِنسانیت کا دَرَس جو دیتے ہیں فَخَر سے،
اِنسانیت کو خود ہی وہ پامال کر چُکے ہوتے ہیں۔

َلب پر دُعا، دِلوں میں ہَوس، آنکھ میں دھُواں،
اَیسے نقاب والے کئی زَخم دے چُکے ہوتے ہیں۔

ظالِم کے ہاتھ چُوم کے کہتا ہے یہ جَہاں،
حق کی صَدا کو لوگ کئی بار دَب چُکے ہوتے ہیں۔

دولت کے شور میں یہ نہیں سُن سکا کوئی،
اِک سادہ دِل کے خواب کہیں مَر چُکے ہوتے ہیں۔

عَدل و کَرم کے نام پہ کرتے ہیں کھیل سَب،
اِحسان جَتانے والے ہی کچھ چھپُا چُکے ہوتے ہیں۔

اِیمان بیچ کر بھی وُہی کہلائے پارسا،
سَچ بولنے والے سزا بُھگت چُکے ہوتے ہیں۔

چہرے پہ نُور، دِل میں مگر تیرگی عَجَب،
اَیسے مُنافِقوں کے ہی قِصّے سُن چُکے ہوتے ہیں۔

مظہرؔ یہ کیسی چال زَمانے نے چَل دی ہے،
اِنسان خود اِنسان سے خائف ہوچُکے ہوتے ہیں۔

Rate it:
Views: 1
03 Dec, 2025
More General Poetry