حُسن بے باک نے یہ کہکے اُڑایا آنچل
میرے محبوب کے تو حوش اُڑانا آنچل
میری آمد کی خبر پاتے ہی شرماتے ہوے ٔ
اُس نے سر پر کبھی کاندھوں پہ سجایا آنچل
میرے محبوب اداؤں میں تیری شامل ہے
شوخ نازک سی حسینٔہ سہ مچلتا آنچل
اپنے دامن میں سمیٹے ہو ے ٔ تاروں کا ہجوم
اُس نے چُن چُن کے ہے ایک ایک سے سجایا آنچل
میری بد بخت نگاہوں کی نظر قید رہے
اُس نے گبھرا کے ہے چہرے پہ لگایہ آنچل
ہم نے تو لاکھ سوالات کییٔ اُن سے مگر
صرف کھولا کبھی اُنگلی پہ لپیٹا آنچل
حالتِ عشق کے احوال جو پوچھے اُن سے
مُسکرا کر کے ہے دانتوں سے دبایا آنچل
رکھ لیا قید میں ساون کی گھٹا ظلفوں میں
اُس نے آہستہ سے جو سر پہ سجایا آنچل
اُلفتوں کا تو گلا اُن سے کیا ہم نے مگر
ایک ایک حرف سے ہے اُس نے بچایا آنچل
ایک اصغر ؔ ہی تو کہتا ہے کہ دیکھوں اب تک
ہے نگاہوں میں بسا میرے وہ پیارا آنچل