اٹھائے پھرتا کہاں تک تیرے نشیلے ہاتھ
خود اپنے جسم پہ تھے بوجھ میرے ڈھیلے ہاتھ
سدا محیط رہیں بستیوں پہ خشک رتیں
کسی بھی سر پہ نہ رکھے ہوا نے گیلے ہاتھ
عجب نہیں کہ یہ رسم حنا بھی اٹھ جائے
حنوط کر کےرکھو دلہنوں کے پیلے ہاتھ
گرا زمین پہ پرچم تو علم تک نہ ہوا
محاذ جنگ پہ گنتے رہے قبیلے ہاتھ
افق پہ آج کوئی چودھویں کا چاند نہیں
بلا رہے ہیں کسے پانیوں کے نیلے ہاتھ