اٹھا کے ہاتھ میں کشکول التجاؤں کا
گلی گلی میں نہ میلہ لگا صداؤں کا
مقدروں کے دریچے عمل سے کھلتے ہیں
نہیں یہ کام مناجات کا دعاؤں کا
ہمیں قبول ہیں بجتی ہوئی یہ زنجیریں
مگر جواز بھی کوئی تو ہو سزاؤں کا
کواڑ بجنے لگے اک دیا جلانے سے
بڑا شدید تھا رد عمل ہواؤں کا
وفا کی داد کسی بھی طرف سے جب نہ ملے
تو ٹوٹ جاتا ہے خود رابطہ وفاؤں کا
جگر کی بات بھی آزاد کر سلیقے سے
یہ وقت اور زمانہ نہیں اداؤں کا