اپنی انا کی آج بھی تسکین ہم نے کی
جی بھر کے اس کے حسن کی توہین ہم نے کی
لہجے کی تیز دھار سے زخمی کیا اسے
پیوست دل میں لفظ کی سنگین ہم نے کی
لائے بروئے کار نہ حسن و جمال کو
موقع تھا پھر بھی رات نہ رنگین ہم نے کی
جی بھر کے دل کی موت پہ رونے دیا اسے
پرسا دیا نہ صبر کی تلقین ہم نے کی
دریا کی سیر کرنے اکیلے چلے گئے
شام شفق کی آپ ہی تحسین ہم نے کی