اپنی قامت اپنے قد سے باہر آ
پانی ہے تو جزرو مد سے باہر آ
برگ و بار میں چھپ کر یوں آواز نہ دے
ڈائن ہے تو اِس برگد سے باہر آ
دیواروں کو اوڑھ ازل کے اندر رہ
چاروں موسم توڑ ابد سے باہر آ
گھر میں خندق کھود کے کب تک بیٹھے گا
لڑنا ہے تو پھر سرحد سے باہر آ
میرے وار سے کوئی کم ہی بچتا ہے
دشمن زادے میری زد سے باہر آ
ہری صدائیں تیرا رستا تکتی ہیں
خاموشی کی زرد لحد سے باہر آ