اپنے آپ میں رہتے رہتے اپنے آپ سے کھوئے گئے ہیں
اپنی ذات میں رہنے والے اپنی ذات سے کھوئے گئے ہیں
ایک عرصے تک خود کو قطرہ قطرہ کر کے جمع کیا تھا
لیکن ایک لمحے کے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے ہوئے گئے ہیں
کون کرے یہ دعوٰی کہ کوئی کس کو کب تک چاہے گا
اپنے آپ سے وعدہ کر کے ہی جب سارے سوئے گئے ہیں
دنیا والے کیا جانیں گے کیوں آنکھوں سے اشک رواں ہیں
جب سے تنکا تنکا ہو کر بکھرے تب سے روئے گئے ہیں
نفرت کی آندھی کے ہاتھوں دل دھرتی برباد رہی پر
عظمٰی من کے آنگن میں ہم بیج وفا کے بوئے گئے ہیں