آپ جب سے جوان ہونے لگے
اپنے تو امتحان ہونے لگے
یہ جوانی نشہ جو بننے لگے
حد سے باہر طوفان ہونے لگے
میں نے ان کے حضور سجدہ کیا
جو آذری کعبہ کی جان ہونے لگے
منیٰ میں پتھر نہ اٹھائے بنے
خود جو تار دامان ہونے لگے
انتہائے تہذیب جب بھی ہوئی
لوگ پھر سے حیوان ہونے لگے
ہم نے رخت سفر جو با ندھ لیا
آخرت کے سامان ہونے لگے
احوال اہل دل مت پوچھ قیصر
اب تو عبرت نشان ہونے لگے