مجھے ایسے جنگل سے ہو کے
گزرنا تھا اب
جہاں کی زمیں ذائقہ روشنی کی کرن کی
کبھی چکھ نہ پائی ازل سے
جہاں راستوں کا تصور نہ تھا
جہاں کوئی تفریق شام و سحر ہی نہ تھی
جہاں ہر شجر کے عقب میں
بلاؤں کے ڈیرے تھے سانپوں کے مسکن
جہاں موت
مجھے اب گزرا تھا ان برف زاروں
سے ہو کے جھاں
گرسنہ بھیڑیوں کے قطاروں کے بن
کوئ زندہ گواہی نہ تھی
جھاں کپکپاتی ہوا کو بھی اپنی
بقاء کے لیے
موسموں کے بدلتے ہوئے ذائقوں
کو اگلنا پڑا
مجھے ایسے صحرا کو بھی پاٹنا تھا
جو آتش فشاں سے بھی بڑھ کر
حرارت لئے
مستقل ابرو باراں سے عاری رہا
جس کے اگلے کنارے پہ سورج
کے گھر کی کہاوت سنی
جس کے ٹیلوں پہ بکھری ہوئی تشنگی
جس کے موسم فقط
آگ ہی آگ تھے
مجھ کو دیکھو کہ میں ہوں وہی
سخت جاں مثل سنگ
جو ایسے عذابوں کو بھی
سہہ کے آیا
جسے سوچنا بھی ہے مشکل
مگر میری بستی پہ اترے
عذابوں کے یہ سلسلے
ان کو میں سہہ تو سکتا نہیں
اپنے خوابوں سے میں کٹ تو سکتا نہیں