اپنے پہ اسکو پیار نہ آئے تو کیا کروں
اب بھی اسے قرار نہ آئے تو کیا کروں
گلشن میں چار سمت گلوں کی بہار ہے
میرے لئے بہار نہ آئے تو کیا کروں
ساقی تیرا گلہ بجا پر تو ہی کچھ بتا دے
مے پی کے بھی خمار نہ آئے تو کیا کروں
طوفاں کی زد سے بچ گئی جو ناؤ ناخدا
کر کے بھی بیڑہ پار نہ آئے تو کیا کروں
تو مستقل خمار میں ہے جسکے انتظار میں
وہ بھی جو اب کی بار نہ آئے تو کیا کروں
اوروں پہ اختیار سے کیا فائدہ حضور
خود پہ ہی اختیار نہ آئے تو کیا کروں
عظمٰی تیری پکار پہ تیری طرح بہار میں
وہ ہو کے بیقرار نہ آئے تو کیا کروں