پھولوں میں خوشبو نہیں موسم بھی بے رنگ ہے
یہ کیسی بہار آئی تنہا بلبل تنہائی گل کے سنگ ہے
مجھ کو نظر آیا ہے جو اپنا سا کیوں لگنے لگا
میرا نہیں یہ روپ تو تیرا ہی کوئی رنگ ہے
پہنچے تیرے کوچے تلک تیرا نشاں پا نہ سکے
چلتے رہے آگے مگر گلیوں میں راستہ تنگ ہے
ایک ہم ہی تیرے حسن و جمال کے مداح نہیں
جس نے تجھے دیکھا تیرے حسن سے وہ دنگ ہے
تنہائیوں کی راہگزر پہ کوئی بھی تنہا نہیں
ہر موڑ پہ تو ساتھ ہے تیرا سایا سب کے سنگ ہے
جو طویل ہے خزاں کا موسم غم نہ کرو دوستو
یہ تو نوید ہے بہار کی ہر آن دل میں امنگ ہے
کیا خوش نوا منظر سماعت اور بصارت کے لئے
کس ساز کی آواز پے یہ کیسا جلترنگ ہے
اپنا تمدن کیا ہوا تن پہ لبادہ غیر کا
پہچانیے یہ کون ہے مسلم یا اہل فرنگ ہے
خود کو کیسے بچائیں گے دشمن سے کیا لڑ پائیں گے
اپنے ہی لوگوں پہ وار ہے اپنے ہی ملک میں جنگ ہے