ان سے ملاقات ہوتی تو اچھا تھا
اور کوئی بات ہوتی تو اچھا تھا
کوئی کسک دل میں نہ باقی رہتی
کوئی ایسی بات ہوتی تو اچھا تھا
جسے دیکھ کر زندگی مسکرا اٹھے
پاس وہ سوغات ہوتی تو اچھا تھا
ہجر کے پہروں میں زندگی تمام ہوئی
وصل کی کوئی رات ہوتی تو اچھا تھا
ابر ہجراں زیست پہ سایہ فگن رہا
وصل کی برسات ہوتی تو اچھا تھا
موم کر دیتی جو پتھر کا جگر
ایسی میری ذات ہوتی تو اچھا تھا