آؤ نہ تم تو کرنا انتظار اچھا لگتا ہے
اس دل کا ہونا بقرار اچھا لگتا ہے
خوف راہزن تب ہو جو ہو ہوش فردا مجھے
چاہت میں لٹے میرا گھر بار اچھا لگتا ہے
کیسی ہے آشفتہ سری میری محبت کی
چاند سے ملانا رُخ یار اچھا لگتا ہے
پیرانہ سالی میں بھی چھوٹی نہ احترام وفا
کرنا جھروکوں سے دیدار اچھا لگتا ہے
شاید رہے برسُوں کی طرح برسُوں ہی حسرت
اے دل مگر تیرا ہونا طلب گار اچھا لگتا ہے
اتنی عنایت کرنا مسیحا کہ رہیں کچھ دن اور بیمار
جاہیں وہاں ہم عیادت کو بار بار اچھا لگتا ہے
پُوچھو نہ ہم سے کیا ہیں مشاغل کیسی ہے ریتِ تنہائی
رکھ کر سرہانے پہ فوٹو کرنا باتیں دوچار اچھا لگتا ہے
جانے کیا اَثر کر بیٹھی ہے اُن کی صورت کہ
لینا چسکیاں چائے کی پینا سگریٹ بےشمار اچھا لگتا ہے
یہ سوچ کر جانے لگا ہوں کہ وہ کہیں گے زیبّ
سُنو،ُرکو بیٹھو گھڑی دُو چار اچھا لگتا ہے