سپنوں میں کھو جانا مجھ کو اچھا لگتا ہے
خواپوں کو دہرانا مجھ کو اچھا لگتا ہے
چھوڑ کے دنیا کی محفل اک گوشے میں تنہا
بیٹھ کے خود سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
چاند کا بادل کے پیچھے چھپنا کوئی خوب نہیں
پر چھپ کر پھر سے سامنے آنا اچھا لگتا ہے
جھوم جھوم کر بلبل کا شاخوں کے اوپر اٹھلانا
اٹھلا کر پھولوں کا دل بہلانا اچھا لگتا ہے
بادل برکھا اور شام و سحر کے منظر میں
چڑیوں کے گیتوں کا تانا بانا اچھا لگتا ہے
عظمی جن خوابوں میں تیرا جیون گزرا ہے
ان خوابوں کا سچ ہو جانا کیسا لگتا ہے
خواب اگر سچ ہو جائیں تو خواب نہیں رہتے
لیکن خوابوں کا سچ ہو جانا اچھا لگتا ہے