اک رستے پہ چلتے چلتے اکتا گیا ہوں میں
کہ اب یہ سفر کرتے کرتے اکتا گیا ہوں میں
اب زندگی میں کوئی نیا رنگ چاہیے
یک رنگی حیات سے اکتا گیا ہوں میں
اپنی ذات کے حصار میں محصور ہوں
اس قید مسلسل سے اکتا گیا ہوں میں
اپنی جستجو میں یہ عمر لگا دی ہے
خود سے ملتے ملتے اکتا گیا ہوں میں
یہ خورد و نوش، خفتہ و بیداری کا تسلسل
اک جیسے شب و روز سے اکتا گیا ہوں میں
عظمٰی کبھی چلیں گے تاروں کی انجمن میں
بزم زمیں کو سہتے اکتا گیا ہوں میں