اکثر یہ بڑے پہاڑ
Poet: Syed Harris Ahmed By: Syed Harris Ahmed, Counselling, Event Managementاکثر یہ بڑے پہاڑ
 مجھ سے کچھ کہنا چاھتے ہیں
 میں انکے قریب جاتا ہوں
 یہ مجھ سے دور ہو جاتے ہیں
 ملنے کی کوشش
 دونوں جانب سے ہے
 مگر
 کبھی مجھے دیر ہوئی
 تو کبھی وہ دیر کر جاتے ہیں
 
 یہ درخت مجھے اپنے
 رقیب سے محسوس ہوتے ہیں
 یہ مجھ سے جلتے ہیں
 مجھے اپنی چھاؤں سے دور کر کے
 میری تڑپ کاموازنہ
 گرم تپش سے کرتے ہیں
 
 پہاڑ بھی مجھے دیکھنے کا
 منتظر لگتا ہے
 جب بھی کھلے آکاش کے سائے تلے
 اسے دل بھر کے جو دیکھوں
 تو برف سے خود کو
 ڈھانپ لیتا ہے
 ھوا بھی شاملِ سازش ھے
 تیز آوازوں سے
 اسکے الفاظ دبا دیتی ہے
 لہجے کو گونج نہیں دیتی
 مجھے بے بس دیکھ کر
 مۤسکراتی ہـے
 
 رشک تو اِن چشموں کی قسمت پہ ہے
 جو اِسکے درمیاں بہتے ہیں
 اسکے چھو کر 
 خود کو محزوظ کرتے ہیں
 مجھے بے چین دیکھ کر
 بہت اِترا کے چلتے ہیں
 
 میں تو احسان مند بس
 رِم جِھم کا رہـتا ہوں
 جو میرے ارمانوں کا بھرم
 بڑے شان سے رکھتی ہے
 اّس پر برس کر
 میرے پاس آتی ہے
 اور اسکی خوشبـو سے
 میرا دل بہلاتی ہے
 مجھے دِلاسہ دیتی ہـے






