اک امید ہے وابستہ اپنے مقدر سے
میری تاریک شام میں پھیلے گی روشنی قمر سے
اس طرح کی نہ باتیں تم کیا کرو کہیں
تم بھی نہ مسکراؤ کل جبر سے
آزاد ہے میری سوچ ہر طرف سے
دل ڈرتا ہے سماج کے مگر سحر سے
بہہ اٹھتیں ہیں اپنے حد سے باہر نہیں ہوتی
آنکھوں کو ہے میری نسبت سمندر سے
میں اڑنے کی تمنا تو نہیں رکھتا پھر کیوں
جلتی ہے یہ ہوا میرے پر سے