اک خواہش تھی جو اب حسرت ہو گئی
دل نا خوش کی بھی عجیب حالت ہو گئی
اک بے کلی بیقراری سی رہنے لگی ہے
کیسی نجانے یہ اپنی طبیعت ہو گئی
شہر شہر پھرتا ہوں کیوں میں خاک چھانتا
یا یونہی آوارگی کی مجھے عادت ہو گئی
اداسیوں نے دیکھ لیا میرے گھر کا راستہ
دیکھے ہوئے خوشی کو اک مدت ہو گئی
کچھ لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے واجد
اس احمق کو لگتا ہے محبت ہو گئی