اک سفر دھوپ سے ہے چھاؤں تک
اپنا آنا تمہارے گاؤں تک
کٹ گئی رات تو چراغ یہاں
چل کے خود آگئے ہواؤں تک
عشق میں حال یہ ہوا اپنا
بات پہنچی ہے اب دعاؤں تک
اپنا بچپن گزر گیا سارا
گھر سے برگد تمہاری چھاؤں تک
عاجزی کو ن سوچتا ہے یہاں
سوچتے لوگ ہیں اناؤن تک
اب قفس ہی نصیب ہے اپنا
آئی زنجیر میرے پاؤں تک
آپ نے چھو لیا ملک اگرچہ
ہم تو پہنچے نہیں خلاؤں تک
کون روکے لہو کی ہولی کو
ہاتھ پہنچے ہیں اب رداؤں تک
اک پیکر تھا پیار کا سلمیٰ
شخص وہ سر سے لے کر پاؤں تک